اسرائیل اور فلسطین کے مسئلہ سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ لوگوں کی رائے کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور سیاسی طاقتیں جوچاہتی ہیں وہ کررہی ہیں۔ڈاکٹر شائستہ تبسم
کراچی(اسٹاف رپورٹ) پاکستان اسٹڈی سینٹر جامعہ کراچی کے سابق ڈائریکٹر پروفیسرڈاکٹرسید جعفراحمد نے کہا کہ دنیا کے مسائل کو حل کرنے کے لئے عالمی رائے عامہ کو بیدارکرنا ضروری ہے،ویتنام کی جنگ ویتنامیوں نے ویتنام کے میدانوں میں نہیں بلکہ امریکہ، برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک کی جامعات کے ذریعے جیتی اور آج بھی ہم دیکھ رہے ہیں کہ مسئلہ فلسطین پر عالم اسلام خاموش ہے لیکن جو کچھ ہورہاہے وہ مغربی دنیا کی جامعات میں ہورہاہے۔فلسطین کا مسئلہ حل ہوگا اور اس میں کلیدی کردارعالمی رائے عامہ کا ہوگا اور یہ ہی عالمی رائے عامہ مسئلہ کشمیر کے لئے بھی کا رآمد ہوسکتاہے لیکن اس کے لئے ہمیں اپنانقطہ نظر واضح کرناہوگا کہ ہمارانقطہ نظر کیا ہے۔ہمیں کشمیریوں کے حق خودارادیت کے مسئلہ کوبین الاقوامی سطح پر اجاگرکرنے کے لئے ہر سطح پر کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔ان خیالات کا اظہارانہوں نے دفتر مشیر امورطلبہ جامعہ کراچی کے زیر اہتمام آڈیوویژول سینٹر جامعہ کراچی میں یوم سیاہ کشمیر کی مناسبت سے منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔تقریب میں مختلف شعبہ جات کے اساتذہ اور طلباوطالبات کی کثیر تعدادنے شرکت کی۔
ڈاکٹر جعفر احمد نے مزیدکہا کہ کشمیر کے مسئلے پرہم نے فعال کردار اداکرنے کے بجائے دفاعی کردارکوترجیحی دی۔کشمیر کے مسئلہ کے حل کے لئے ہمیں دنیا میں اپنا فعال کردار اداکرناہوگا۔فعال کرداراداکرنے کا مطلب محاذ جنگ کھولنا نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اس کو سفارتی طور پر پُرامن ذرائع کے ذریعے دنیا کے سامنے پیش کریں۔ہمیں دنیا کو اس بات پر قائل کرنے کی ضرورت ہے کہ کشمیریوں کا مسئلہ صرف انسانی حقوق کا نہیں بلکہ ان کی حق خودارادیت کا ہے،کشمیریوں کواپنے مستقبل کا فیصلہ خودکرنے دیاجائے کہ وہ پاکستان یا بھارت میں سے کسی کے ساتھ جانا چاہتے ہیں یا ایک آزادریاست چاہتے ہیں یہ فیصلہ انہیں کرنے دیاجائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بھارت نے کشمیر کے لئے بہت زیادہ محنت اورسفارتی تعلقات کا استعمال کیا ہے جبکہ پاکستان نے لوگوں کو دکھانے کے لئے بہت کچھ کیا،تقریریں اور بڑے بڑے دعوے کئے اور جنرل اسمبلی میں تقریریں کیں جس پر بہت ساری تالیاں بجائی گئیں اس کے علاوہ کیا گیا۔کشمیر کے مسئلے پر ہم نے ہمیشہ دفاعی کرداراداکیا ہے اور اگر بھارت کچھ کرتاہے توجواب میں ہم کرتے ہیں،انہوں نے 370 ختم کیا تو ہم نے جلوس نکالے اور اگربھارت کوئی نئی چیز کرتاہے تو ہم اس کی مذمت کرتے ہیں ہم خودکیاکررہے ہیں،ہمارافعال کردارکیاہے۔
رئیس کلیہ فنون وسماجی علوم جامعہ کراچی پروفیسرڈاکٹر شائستہ تبسم نے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے فلسطین میں ہونے والی نسل کشی اس بات کو غلط ثابت کررہی ہے کہ لوگوں کی رائے دنیا کی فیصلہ سازی تبدیل کرسکتی ہے۔ اسرائیل اور فلسطین کے مسئلہ سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ لوگوں کی رائے کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور سیاسی طاقتیں جوچاہتی ہیں وہ کررہی ہیں۔جب تک مسئلہ کشمیر کو دنیا کے سامنے باربارپیش نہیں کیاجائے گااس وقت تک یہ حل نہیں ہوسکتا۔مسئلہ کشمیر کوڈائیلاگ کے ذریعے ہی حل کیاجاسکتاہے۔فلسطین واسرائیل مسئلہ دیکھنے کے بعدیہ سمجھ آتاہے کہ ان تنازعات کا فوجی حل نہیں ہے کیونکہ اس میں وہ علاقے میدان جنگ بن جاتے ہیں جس میں نقصان دونوں کا ہوتاہے۔پاکستان کو مسئلہ کشمیرکو بین الاقوامی سطح اور بالخصو ص ا قوام متحدہ میں اجاگر اور ڈائیلاگ کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر شائستہ تبسم نے مزید کہا کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں میڈیا کو جانے نہیں دیتابلکہ وہ خود اپنی مرضی کے مطابق میڈیاکوریج کرتے اور وہ ہی جاری کرتے ہیں۔کشمیر انڈیااور پاکستان دونوں کے لئے اہم ہے جس کی ایک بڑی وجہ پانی ہے اور پانی کا ایک بڑاذریعہ کشمیر ہے۔بھارت کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرناچاہتاہے اور اس نے کشمیریوں سے ان کا حق خودارادیت چھین لیاہے جس کے لئے پوری دنیا میں آوازاُٹھانا ضروری ہے۔
اس موقع پر مشیر امورطلبہ جامعہ کراچی ڈاکٹر نوشین رضا نے کہا کہ مسائل جنگوں سے نہیں بلکہ مذاکرات سے حل ہوتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ آج کے سیمینار کا مقصد کشمیریوں سے اظہاریکجہتی اور نوجوان نسل کو کشمیر کی تاریخ اور بھارت کی طرف سے ان پرڈھائے جانے والے مظالم کے حوالے سے آگاہی فراہم کرنا ہے۔