اسلام آباد(بیورو رپورٹ)سپریم کورٹ نے ذوالفقار علی بھٹو ریفرنس کی سماعت جنوری تک ملتوی کردی۔
سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ عدالتی معاونین کو نوٹس جاری کر کے جواب لیا جائے گا۔
جسٹس منصور نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 186 کے تحت صدارتی ریفرنس کے ذریعے سپریم کورٹ کے فیصلوں کی نظرثانی نہیں ہوسکتی، اب ہم بھٹو فیصلے کو چھو نہیں سکتے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بینچ سماعت کر رہا ہے اور یہ سماعت سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر لائیو نشر کی جا رہی ہے۔
پیپلزپارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک اور اٹارنی جنرل منصورعثمان عدالت میں موجود ہیں۔
عدالت میں اٹارنی جنرل منصور عثمان نے کہا کہ ریفرنس 15 صفحات پر مشتمل ہے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ صدارتی ریفرنس میں صدر صاحب ہم سے کیا چاہتے ہیں؟
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ کون سے صدر نے یہ ریفرنس فائل کیا ہے؟
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ آصف زرداری نے بطور صدر یہ ریفرنس بھجوایا تھا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آصف زرداری کے بعد کتنے صدر آئے؟
اٹارنی جنرل منصور عثمان نے جواب دیا کہ آصف زرداری کے بعد 2 صدر آئے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کسی صدر نے صدارتی ریفرنس واپس نہیں لیا تو یہ اب بھی عدالت کے اختیار میں ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ حکومت کی جانب سے بھی ریفرنس واپس لینے کی کوئی ہدایات نہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ریفرنس میں کیا سوالات اٹھائے گئے ہیں؟
وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ریفرنس سماعت کے لیے منظور ہوچکا تھا۔
وکیل فاروق نائیک نے کہا کہ نسیم حسن شاہ نے انٹرویو میں تسلیم کیا کہ ان پر دباؤ تھا، دوسرے انٹرویو میں نسیم شاہ نے کہا مارشل لاء والوں کی بات ماننی پڑتی ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ نسیم حسن شاہ نے یہ بتایا کہ کس نے ان پر دباؤ ڈالا تھا؟
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ اس وقت مارشل لاء تھا تو مارشل لاء کی بات کی گئی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آپ ریفرنس کا ٹائٹل پڑھیں۔
وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ نسیم حسن شاہ نے دوسرا انٹرویو کسی انجان کو دیا تھا، 2018ء میں بھی ریفرنس پر سماعت کے لیے درخواست دائر کی تھی۔