کراچی،(استاف رپورٹر) پاکستان، خاص طور پر صوبہ سندھ میں، ادویات کے خلاف مزاحمت پیدا کرنے میعادی بخار ایکس ڈی آر ٹائیفائیڈ کا مقابلہ کرنے کے لیے امریکا کی جانب سے ایک اہم اقدام لیا گیا۔
کراچی میں شراکت داروں کے ساتھ دو روزہ اجلاس کے دوران وبا سے نمٹنے اور صحت کے نظام پر اس کے دباؤ کو کم کرنے کے لیے مؤثر حکمت عملی اور فوری اقدامات کی سفارش کی گئی۔
امریکا کی جانب سے صوبہ سندھ میں ادویات کے خلاف مزاحمت پیدا کرنے والی اس خطرناک بیماری، ایکس ڈی آر ٹائیفائیڈ سے نمٹنے کے لیے کراچی میں ایک دو روزہ اجلاس منعقد کیا گیا۔ یہ اجلاس 2 اور 3 اکتوبر کو منعقد ہوا، جس میں صحت عامہ کے بحران سے نمٹنے کے لیے مؤثر اقدامات اور حکمت عملی پر غور کیا گیا۔
اجلاس کے دوران شرکاء نے اس بات کا جائزہ لیا کہ یہ بیماری سندھ میں لوگوں اور صحت کے نظام کو کس طرح متاثر کر رہی ہے۔ اس موقع پر ایسے اقدامات پرغورکیا گیا جو قابلِ عمل، سستے اور مؤثر ہوں تاکہ وبا پر جلد قابو پایا جا سکے۔
پاکستان میں ایکسٹینڈڈ ڈرگ ریزسٹنٹ ٹائیفائیڈ کو کنٹرول کرنے کے لیے عمل درآمد کی غرض سے دس اہم اقدامات کو سب سے زیادہ ترجیحی اقدامات کے طور پر شناخت کیا گیا ہے، جن میں اینٹی بایوٹکس کے ذمہ دارانہ استعمال کے لیے ہدایات نافذ کرنا، بغیر نسخے کے اینٹی بایوٹکس کی فروخت پر پابندی لگانا، ہر سطح پر صاف پینے کے پانی کو یقینی بنانا، اور ایک صوبائی XDR ٹائیفائیڈ ردعمل منصوبہ تیار کرنا شامل ہے تاکہ ہر انتظامی سطح پر پالیسی کی رہنمائی کی جا سکے۔
اجلاس کے شرکاء نے ٹائیفائیڈ کنٹرول کے سلسلے میں صوبے کے مستقبل کے اقدامات کی رہنمائی کے لیے ایک کثیر شعبہ جاتی تکنیکی ورکنگ گروپ بھی تشکیل دیا۔ یہ گروپ 2025 کے اوائل میں جمع ہوگا تاکہ اس ہفتے کے اجلاس میں شناخت کیے گئے اہم اقدامات کے نفاذ کے لیے حکمت عملی اور پالیسی تیار کی جا سکیں۔
اجلاس میں شرکت کرنے والوں میں ڈاکٹر الزبتھ ڈیولانٹس، ڈپٹی برانچ چیف، واٹر بورن ڈیزیز پریوینشن برانچ، یو ایس سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن ؛ ڈاکٹر محمد افضل، عالمی صحت کی سلامتی اور وبائی امراض کے مشیر، پاکستان کنٹری آفس؛ محمد فہیم، ہیلتھ سیکیورٹی پارٹنرز؛ اور ڈائریکٹوریٹ جنرل آف ہیلتھ سروسز، حکومت سندھ؛ میونسپل واٹر اور سیور اتھارٹیز؛ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن؛ اور آغا خان یونیورسٹی کے نمائندے شامل تھے۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ-اسلام آباد، عالمی ادارہ صحت یونیسف، اور فلیمنگ فنڈ کے مبصرین نے بھی شرکت کی
پاکستان میں ایکس ڈی آر ٹائیفائیڈ کے کیسز پہلی مرتبہ 2016ء میں سامنے آئے، جنہوں نے ملک بھر میں، خاص طور پر سندھ میں، صحت عامہ کے لیے سنگین خطرات پیدا کر دیے ہیں۔ یہ بیماری اینٹی بائیوٹکس سمیت دیگر ادویات کے خلاف مزاحمت کرتی ہے، جس کی وجہ سے صحت کے نظام پر بہت زیادہ دباؤ پڑ رہا ہے۔
سالمونیلا بیکٹیریا ٹائیفائیڈ بخار کا باعث بنتا ہے، جو آلودہ خوراک اور پانی سے پھیلتا ہے۔ دنیا بھر میں ہر سال 90 لاکھ سے زائد ٹائیفائیڈ کیسز سامنے آتے ہیں، جبکہ زیادہ تر کیسز ان ممالک میں رپورٹ ہوتے ہیں جہاں خوراک و پانی غیر محفوظ یا صفائی کے ناقص انتظامات ہوتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر دس لاکھ میں سے 175 افراد ٹائیفائیڈ سے متاثر ہوتے ہیں۔ سال 2016ء میں حیدرآباد میں ایکس ڈی آر ٹائیفائیڈ کے کیسز سامنے آنے کے بعد، خصوصن صوبہ سندھ میں، اس بیماری کے کیسز میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
یو ایس سینٹر فار ڈزیز کنٹرول کی جانب سے ایکس ڈی آر ٹائیفائیڈ سے نمٹنے کے لیے کی جانے والی یہ مشترکہ کوشش امریکی حکومت کیجانب سے پاکستان میں صحت کے بہتر نتائج کے فروغ کے لیے چلائے جانے والے بے شمار پروگرامز میں سے ایک ہے۔ امریکا پاکستان میں پولیو اور ہیپاٹائٹس کے خاتمے کے لیے بھی بھرپور تعاون کر رہا ہے اور وبا کے ہنگامی حالات سے نمٹنے کی تیاریوں میں اضافہ، لیبارٹریوں کی صلاحیت میں بہتری اور انتظامیہ کی تربیت بھی اسی تعاون کا حصہ ہیں۔