کراچی (اسٹاف رپورٹر) صوبائی وزیر برائے ترقی نسواں شاہینہ شیر علی کا کہنا ہے کہ وہ خوں بہنے کی بیماری ہیموفیلیا کے مریضوں کی مشکلات سے آگاہ ہیں۔ وزیر صحت سے ملاقات کر کے صورتحال میں بہتری لانے اور علاج میں مدد کے لیے کوششیں کریں گی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز فیڈریشن ہاؤس کلفٹن میں ایف پی سی سی آئی کی سندھ ریجنل کمیٹی برائے سی ایس آر، قائمہ کمیٹی برائے ہیلتھ و میڈیکل سائنسز اور ہیموفیلیا ویلفیئر سوسائٹی کراچی کے اشتراک سے عالمی یوم ہیموفیلیا کے سلسلے میں منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر سینئر نائب صدر ایف پی سی سی آئی ثاقب فیاض مگوں، کنوینر ایف پی سی سی آئی قائمہ کمیٹی ڈاکٹر زاہد حسن انصاری، امان پیر، صدر حیدرآباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری عدیل صدیقی، بانی و سی ای او ہیموفیلیا ویلفیئر سوسائٹی کراچی راحیل احمد، انیس الرحمان، شاہد داود، ڈاکٹر منیرہ برہانی، ڈاکٹر بشری معیز اور دیگر بھی موجود تھے۔ صوبائی وزیر شاہینہ شیر علی نے بتایا کہ وہ حالیہ عرصے سے ہیموفیلیا ویلفیئر سوسائٹی کراچی کے ساتھ مل کر ان کے مسائل حل کرنے کے لیے کوشاں ہیں اور وہ جدوجہد اب بھی جاری رکھیں گی۔ اس سے قبل ڈاکٹر زاہد انصاری نے مہمانوں کو خوش آمدید کہتے ہوئے مطالبہ کیا کہ پاکستان میں ہیموفیلیا کے مریضوں کے لیے سرکاری سطح پر علاج فراہم کیا جائے۔ تشخیصی سہولیات بھی فراہم کی جائیں۔ بانی و سی ای او ہیموفیلیا ویلفیئر سوسائٹی راحیل احمد نے بتایا کہ پاکستان میں ہیموفیلیا کے تقریبا 30 ہزار مریض موجود ہیں جن میں سے 10 ہزار سندھ کے ہیں، اس میں سے 1200 ہمارے ادارے کے پاس رجسٹرڈ ہیں۔ ان رجسٹرڈ مریضوں کا سالانہ خرچہ بائیس سو ملین روپے ہے۔ حکومت سندھ کے پاس ہیموفیلیا کے پچاس مریضوں کی سمری ہیلتھ ڈپارٹمنٹ میں کئی ماہ سے تاخیر کا شکار ہے جبکہ مالی سال ختم ہونے والا ہے۔ اگر سمری فوری منظور نا ہوئی تو یہ پچاس بچے بھی معذوری کی طرف چلے جائیں گے۔ حکومت اس وقت صرف چھ مریضوں کے لیے انجکشن فراہم کر رہی ہے۔ راحیل احمد نے کہا کہ ہیموفیلیا کے مریض ہر روز زندگی اور موت کی کشمکش میں رہتے ہیں۔ اگر سرکاری اسپتالوں میں خون کی بیماری کے علاج اور تشخیص کی سہولت فراہم کر دی جائے تو یہ مریض بھی عام انسانوں کی طرح زندگی گزار سکتے ہیں۔ اس موقع پر ڈاکٹر منیرہ برہانی اور ڈاکٹر بشری معیز نے پریزنٹیشنز بھی دیں۔