کراچی (پاک نیوز24)وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ سندھ میں 2 لاکھ غریب گھرانوں کو رعایتی قیمت پر سولر سسٹم فراہم کر رہے ہیں، ایک سسٹم کی اصل لاگت 55 ہزار ہے جو 80 فیصد سبسڈی کے بعد کراچی سمیت سندھ کے 30 اضلاع میں مستحقین کو صرف 6 ہزار روپے کی ادائیگی پر فراہم کیا جائےگا۔اکتوبر کے آخر تک 50 ہزار سسٹم تقسیم کےلیے کراچی پہنچ جائیں گے۔سسٹم 80 سے 100 واٹ کی سولر پلیٹ،
180 واٹ یعنی 18 اے ایچ کی بیٹری، پنکھا، تین ایل ای ڈی بلب اور موبائل چارجنگ کی سہولت پر مشتمل ہوگا۔3 کمپنیاں اس سسٹم پر کام کررہی ہیں، تمام کمپنیوں کے شرکا کو خوش آمدید کہتا ہوں، چاہتے ہیں سیلاب متاثرین کے 20 لاکھ گھروں کو بھی سولر سسٹم دیں۔ وزیر اعلیٰ ہاؤس میں 2 لاکھ سولر ہوم سسٹم کٹس کی فراہمی کےلیے دستخط کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مراد علی شاہ نے کہا کہ کم آمدنی والے خاندانوں کو 80 فیصد سبسڈی پر سولر سسٹم فراہم کیا جائے گا، بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں رجسٹرڈ گھرانوں کو پروگرام میں شامل کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ پروگرام کا آغاز 2020 ءمیں کیا گیا مگر سبسڈی کی رقم 40 فیصد تھی، سندھ سولر انرجی پروجیکٹ ورلڈ بینک کے تعاون سے شروع کیا جا رہا ہے، ایکنک نے 27.4 بلین روپے کی لاگت سے اس معاہدے کی منظوری دی ہے، ورلڈ بینک اس پروجیکٹ پر 100 ملین ڈالر کی فنڈنگ کر رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ اب عالمی بینک کے تعاون سے سبسڈی کی رقم 80 فیصد تک بڑھا دی گئی ہے، 2022 میں تباہ کن سیلاب اور کوویڈ 19 کی وجہ سے منصوبہ تاخیر کا شکار ہوا۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ گرین پاور پلانٹ سے عوام کو سستی بجلی ملے گی، سندھ میں نوجوانوں کو سولر ٹیکنیشن کی ٹریننگ بھی دے رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ تھر سے سستی ترین بجلی فراہم کی جارہی ہے، پہلے مرحلے میں 400 میگاواٹ بجلی پیدا کریں گے۔انہوں نے کہا کہ اس وقت بجلی کا بحران زیادہ ہے، گرین پاورپلانٹ سے لوگوں کو سستی بجلی فراہم کریں گے، تمام سرکاری عمارتوں کو سولر سسٹم پر منتقل کیا جائے گا، 34 سرکاری عمارتیں سولر پر منتقل ہوچکی ہیں۔وزیر توانائی ناصر حسین شاہ نے بتایا کہ منصوبے کی بولی میں 18 مقامی اور بین الاقوامی کمپنیوں نے شرکت کی، جن میں 3 کمپنیوں کی بولی منظور کی گئی، ان میں برطانیہ ، چین اور امریکا کی کمپنیاں شامل ہیں۔انہوں نےبتایا کہ سسٹم کی خریداری کےلیے سندھ بینک میں 6 ہزار روپے کا چالان جمع کرانا ہوگا۔ سسٹمز کی تقسیم سندھ پیپلز ہاؤسنگ پروجیکٹ کے تحت کام کرنے والی 5 این جی اوز کے ذریعے کی جائے گی۔