کراچی(پریس ریلیز )خواتین کے بارے میں بالعموم اور میڈیا سے وابستہ خواتین کے بارے میں باالخصوص ہرزہ سرائی کرنے والے بعض یو ٹیوبرز اور لکھاریوں کے خلاف مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی سرگرم خواتین نے ویمنز جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے مشترکہ پلیٹ فارم سے عملی جدوجہد کرنے کا اعلان کردیا۔یہ اعلان پیر کو کراچی پریس کلب میں منعقدہ ایک ہنگامی پریس کانفرنس میں کیا گیا جس میں کہا گیا کہ کچھ لوگ سوشل میڈیا پر خواتین کے کردار پر کیچڑ اچھال کر اپنا قد بڑھانے کی کوشش کررہے ہیں۔ہم ایسے عناصر کی سخت مذمت کرتے ہیں اور ریاست سے مطالبہ کرتے ہیں کہ خواتین میڈیا ورکرز کے کردار پر کیچڑ اچھالنے والوں کے خلاف ازخود کارروائی کی جائے اور ریاست خواتین کے کردار پر حملے کو ریاست پر حملہ تصور کرے،اگر ریاست نے اس نفرت انگیز مواد کا نوٹس نہ لیا تو خواتین اس معاملے سے خود نمٹنا جانتی ہیں۔پریس کانفرنس سے ایکشن کمیٹی کی سربراہ فضہ شکیل ، انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی سرگرم خواتین فرحت پروین، نذہت شیریں،سماجی علوم کی ماہر ڈاکٹر بیلہ نواز، سینئر صحافی عابد حسین اور لیڈی رپورٹر سمیہ خورشیدنے بھی خطاب کیا۔خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی سرگرم رہنما نذہت شیریں نے کہا کہ انہوں نے ہمیشہ ہر فورم پر ہر شعبے کی خاتون کے حق کے لیے بلاتخصیص آواز اٹھائی ہے۔اس آواز میں ہم میڈیا خواتین کے ساتھ ہیں۔ویمنز جوائنٹ ایکشن کمیٹی کی چیئرپرسن سینئر صحافی فضہ شکیل نے کہا کہ خواتین ورکرز سے خواہ وہ کسی بھی شعبے سے وابستہ ہوں ایک الگ مخلوق کے طور پر برتاؤ کیا جاتا ہے اور جو خواتین بھی اپنی اہلیت کی بنیاد پر ترقی کا زینہ طے کرتی ہیں انہیں طرح طرح کے الزامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خواتین کو ہراسانی کا سامنا ہوتا ہے لیکن وہ مجبورا خاموش رہتی ہیں جس کا فائدہ کچھ عناصر اٹھالیتے ہیں۔
ڈاکٹر بیلہ نواز نے کہا کہ وہ ماضی میں بھی ایسے کیسز کے خلاف آواز اٹھاتی رہی ہیں اور آئندہ بھی میڈیا ورکرز سمیت ہر مظلوم خاتون کا ساتھ دیں گی۔فرحت پروین نے کہا کہ حکومت کو اس کے کام کرنے پر مجبور کرنا ضروری ہے اور قانون اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ اگر حکومت یا ریاست سستی کرے تو انصاف کا دروازہ کھٹکٹایا جائے۔سینئر صحافی عابد حسین نے کہا کہ خواتین کو ہراساں کرنے کا معاملہ ہمیشہ سے رہا ہے لیکن اگرہراساں کرنے والے کو بر وقت پکڑ لیا جائے اور قانون کے مطابق سزا دے دی جائے تو ہراسانی کے واقعات میں بہت کمی ہوسکتی ہے۔ٹی وی رپورٹر سمیہ خورشید نے رپورٹنگ کے دوران اداروں میں خواتین کو اہمیت نہ دینے کی مذمت کی اور کہا کہ انہیں برابر ی کی بنیاد پر کام کرنے دیا جائے تو بہتر ہے۔اس موقع پر بعض قرار دادیں بھی پیش کی گئیں جن میں کہا گیا کہ ہمارا یہاں جمع ہونے کا مقصد آپ سب کے ساتھ مل کر اس رویے کے خلاف آواز اٹھانا ہےجو ارادی یا غیر ارادی طور پر خواتین ورکرز کے خلاف پروان چڑھایا جا رہا ہے ۔ اس ضمن میں چند افراد خاصے متحرک نظر آتے ہیں جن کی فقری طور پر مذمت ضروری ہے۔ایکشن کمیٹی مطالبہ کرتی ہے کہ تمام پیشوں کی عزت و ناموسِ کو یقینی بنایا جائے خاص طور خواتین کے لئے۔ تمام شعبہ زندگی میں کام کرنے والے افراد کو ان کے پیشے میں کام کی مکمل آزادی جائے ۔کسی بھی شعبے میں کام کرنے والی خواتین کے لیے انسان دوست رویے کی ضمانت دی جائے ۔میڈیا میں کام کرنے والی خواتین کے حوالے سے ان کی اجرت اور ترقی برووقت یقینی بنائی جائے۔ریاست اپنا ذمہ دارانہ کردار نبھائے ۔میڈیا میں بھی لیبر قوانین کا فوری اطلاق یقینی بنایا جائے۔ معاشرے کے سارے طبقات ان مطالبات کے حق میں آواز اٹھائیں۔
Thank you Roobina and Summaiya for inviting me as speaker of this session.