کراچی: پاکستان میں ہر سال آگ لگنے کے واقعات کے نتیجے میں تقریبا 15 ہزار سے زائد افراد کی ہلاکتیں ہوتی ہیں اور سالانہ تقریبا ڈیڑھ لاکھ افراد جل کر شدید زخمی ہو جاتے ہیں جبکہ تقریبا ایک ہزار ارب کا مالی نقصان ہوتا ہے۔
بدقسمتی سے ملک میں زیادہ تر اسپتالوں اور تعلیمی اداروں میں آگ بجھانے اور ہنگامی حالات میں مریضوں کے انخلا کے انتظامات موجود نہیں ہیں۔
کسی بھی ہنگامی صورتحال خصوصا آگ لگنے کے نتیجے میں مریضوں کے انخلا کے لیے تربیت یافتہ عملہ بھی موجود نہیں ہے جس کے نتیجے میں جانی نقصان کئی گنا بڑھ سکتا ہے۔
ان خیالات کا اظہار صوبائی وزیر کھیل، ثقافت اور امور نوجوانان ڈاکٹر جنید علی شاہ نے بدھ کے روز نیشنل فائر سیفٹی سمپوزیم سے بطور مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے کیا۔
کانفرنس کا انعقاد فائر پروٹیکشن ایسوسییشن آف پاکستان نے کیا تھا جس سے صوبائی وزیر کھیل ڈاکٹر جنید علی شاہ کے علاوہ صوبائی وزیر صنعت و تجارت یونس ڈھاگا، فائر پروٹیکشن ایسوسییشن آف پاکستان کے صدر کنور وسیم، طارق معین، فواد باری، ذوالفقار شاہ سمیت دیگر ماہرین نے نے بھی خطاب کیا۔
صوبائی وزیر کھیل ڈاکٹر جنید علی شاہ کا کہنا تھا کہ کراچی میں اسپتالوں اور تعلیمی اداروں میں آگ بجھانے اور ہنگامی حالات میں انخلا کے خصوصی انتظامات کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ مریض اور چھوٹے بچے ازخود ہنگامی حالات میں کسی ملٹی سٹوری بلڈنگ سے نکلنے کے قابل نہیں ہوتے۔
ان کا کہنا تھا کہ تعلیمی اداروں میں بچوں کو ہنگامی حالات سے نپٹنے کی تربیت دینے کی ضرورت ہے اور اس سلسلے میں وہ صوبائی وزیر تعلیم سے درخواست کریں گے تاکہ تعلیمی اداروں میں آگ لگنے اور ہنگامی صورتحال سے بچنے کی تربیت دی جا سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں بلدیہ ٹاؤن گارمنٹس فیکٹری اور کراچی کے ریجنٹ پلازہ ہوٹل میں ہونے والی آتش زدگی کے نتیجے میں قیمتی جانوں کا زیاں ہوا، اگر ان عمارتوں میں ہنگامی صورتحال سے بچنے کے آلات اور لوگوں میں آگاہی ہوتی تو کئی قیمتی جانیں بچائی جا سکتی تھیں۔
فائر پروٹیکشن ایسوسییشن اف پاکستان کے صدر کنور وسیم کا کہنا تھا کہ پاکستان خصوصا کراچی میں آگ لگنے کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے لیکن بدقسمتی سے اس شہر میں بلڈنگ کوڈز پر عمل درآمد نہیں کروایا جا رہا جس کے نتیجے میں قیمتی انسانی جانیں ضائع ہو رہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ فائر سیفٹی اور ہنگامی حالات سے بچنے کے کورسز پاکستان کی تمام یونیورسٹیوں میں پڑھائے جانے چاہیے تاکہ طلبہ کو اپنی اور دوسروں کی جان بچانے کے قابل بنایا جا سکے۔
کنور وسیم کا مزید کہنا تھا کہ یہ صرف ایوارڈ کی تقریب نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد مختلف اداروں خصوصا تعلیمی اداروں کو کو اکھٹا کرنا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو چاہیے کہ وہ کسی بھی کثیر المنزلہ عمارت کا نقشہ اس وقت تک پاس نہ کرے جب تک وہاں آگ بجھانے کے انتظامات نہ ہوں کیونکہ یہ ہمارے مستقبل کا سوال ہے، حکومت بلڈنگ کوڈز کے نفاذ میں ہماری مدد کرے۔
طارق معین، ڈائریکٹر ٹریننگ اینڈ پروجیکٹس
ایف پی اے پی نے اس موقع پر انکشاف کیا کہ کراچی میں کثیر المنزلہ عمارتوں اور فیکٹریوں میں 80 فیصد آگ بجھانے والے آلات ناکارہ ہیں، اکثر جگہوں پر فائر الارم سسٹم کام ہی نہیں کرتے جبکہ آگ بجھانے والے آلات کی ری فلنگ عالمی معیار کے مطابق نہیں ہوتی، ان کا کہنا تھا کہ آگ بجھانے کے نظام کی ماہانہ انسپیکشن کا کوئی انتظام موجود نہیں، سال میں بندہ ری فلنگ کر کے چلا جاتا ہے، جبکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ جن عمارتوں میں آگ بجھانے کے انتظامات موجود ہیں ان کا وقتاً فوقتاً جائزہ لے کر کمی بیشی کو دور کیا جائے۔
طارق معین کا کہنا تھا کہ پاکستان میں آگ لگنے کے حادثات کے نتیجے میں کم از کم 10 سے 15 ہزار ہلاکتیں ہوتی ہیں جبکہ تقریبا ہر سال ڈیڑھ لاکھ کے قریب لوگ آگ لگنے کے واقعات کے نتیجے میں جل کر زخمی ہو جاتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق آگ لگنے کے واقعات میں ایک ہزار ارب روپے سالانہ کا نقصان ہوتا ہے۔
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دیگر ماہرین کا کہنا تھا کہ کثیر المنزلہ رہائشی عمارتوں، فیکٹریوں اور دیگر امارات میں آگ سے بچنے کے آلات کی تنصیب، بلڈنگ کوڈز پر عمل درآمد اور لوگوں کی ہنگامی حالات سے نمٹنے کی تربیت کے ذریعے نہ صرف قیمتی انسانی جانوں کو بچایا جا سکتا ہے بلکہ سالانہ عربوں روپے کے نقصانات سے بھی بچا جا سکتا ہے۔
اس موقع پر مختلف شخصیات اور اداروں کو بہترین کارکردگی اور انتظامات پر ایوارڈز بھی دیے گئے۔