کراچی (اسٹاف رپورٹر) سودی نظام ظلم کی ایسی شکل ہے جس میں قرض دینے والا قرض لینے والے کی مجبوری سے فائدہ اٹھاتا ہے، سودی نظام ایک غیر منصفانہ نظام ہے۔ ہمارے بینکوں کو ویلتھ کریشن کا بیڑا اٹھا ہوگا، رویوں بدلنا ہوگا،اور صرف باتوں کا غازی بننے کی بجائے عمل کو مضبوط کرنا ہوگا، پاکستان میں اسلامک بینکاری کا سفر فوری فیصلے کرکے تیز کیا جاسکتا ہے، شریعہ کمیونٹی کو بزنس کی تعلیم دینے کی ضرورت ہے۔ ان خیالات کا اظہار ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک سلیم اللہ نے بدھ کے روز مقامی ہوٹل میں سیلانی ویلفیئر انٹر نیشنل ٹرسٹ اور دارلعلوم میمن کے اشتراک سے منعقدہ دوسری نیشنل اسلامک اکنامک فورم سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر سیلانی ٹرسٹ کے بانی چیئرمین اور فورم کے کنوینئر مولانا بشیر فاروق قادری نے سودی بینکاری نظام کے خلاف اعلان جنگ کو تیز کرنے کے عزم کا اظہار کیا اور کہا ہے کہ سیلانی کا قیام تقویٰ کی بنیاد پر عمل میں لا یا گیا تھا اور دیگر شعبوں کی طرح ہمارا یقین ہے کہ سود کے خلاف جنگ میں بھی سیلانی دیگر اداروں کے ساتھ مل کر جلد کامیابی حاصل کرلے گا۔ مفتی اعظم پاکستان اور نیشنل اسلامک اکنامک فورم کے پیٹرن ان چیف مفتی منیب الرحمان نے کہا کہ پاکستان میں اسلامک بینکاری کی جانب سفر سست روی کا شکار ہے، 2027سر پر ہے اور اس سلسلے میں پیشرفت نظر نہیں آرہی۔جامد اثاثوں کو گروی رکھ کر سکوک جاری کرنا ملک کو معاشی ترقی نہیں دے سکتا، سیاستدان مقتدرہ سے اپنا اپنا حصہ لینے کیلئے قطار لگائے بیٹھے ہیں،اب جو بھی مسند اقتدار پر بیٹھے گا اس کی پہلے ترجیح آئی ایم ایف کے آستانے پر سجدہ ریز ہونا ہوگا،کیونکہ آئی ایم ایف سے بیعت ملے گی تو ہی چھوٹے موٹے آستانوں کی راہیں کھلیں گی۔ سابق وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اسلامی نظام کی حامی بھری لیکن اب تک کیا کام ہوا،۔ انہوں نے کہا کہ اسٹیٹ بینک براہ راست اسلامک بینکوں کے قیام کی بجائے کنونشنل بینکوں کی برانچیں کھول رہا ہے۔ اس اندازسے ملک چلتا رہا تو آئندہ بیرونی و داخلی قرضہ جات ملک کی معیشت کو گھیر لیں گے۔انہوں نے اسلامک بینکنگ کے حوالے سے سیلانی ٹرسٹ کی کوششوں کی تعریف کی۔ نیشنل اسلامک اکنامک فورم کے تحت منعقد ہونے والی کانفرنس میں دو پینل ڈسکشن بھی ہوئے جن میں جدید بینکاری سے متعلقہ ماہرین اور علمائے اکرام نے مضاربہ، تکافل اور دیگر اسلامک بینکنگ پروڈکٹس پرسیر حاصل گفتگو کی۔ کانفرنس سے سیلانی کے ٹرسٹی افضل چامڑیا،امجد چامڑیا، سینٹرل ڈیپازیٹری کمپنی کے سی ای او بدر الدین اکبر، فیصل بینک کے سی ای او یوسف حسین، میزان بینک کے صدر عرفان صدیقی، عارف حبیب کنسلٹنسی کے سی ای او نسیم بیگ،یو بی ایل کے سابق صدر شہزاد دادا، آئی ٹی ماہر ڈاکٹر ضیاء الرحمان نے بھی خطاب کیا۔ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک سلیم اللہ نے مزید کہا کہ بشیر فاروقی نے جو بیڑہ سود کے خاتمہ کے لئے اٹھایا ہے ہم اس میں ان کے ساتھ ہیں، ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ کیا ہمارے بینک ویلتھ کریشن کر رہے ہیں۔ اسلامک بینکنگ سسٹم کے ذریعے ویلتھ کریشن کو فروغ دیاجاسکتا ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ بزنس کمیونٹی منافع بخش کاروبار کو اسٹیٹ بینک سے چھپا کر نقصان والے کاروبار میں شراکت کیلئے بینکوں سے قرضوں کیلئے رجوع کرتی ہے۔ اسلامک بینکنگ ایک تحریک ہے اس لئے اسے فروغ دینے کیلئے سینٹر آف ایکسلنس بنانے کی ضرورت ہے۔ عطیات دینے والے مخیر حضرات کو چاہیے کہ مالی خدمات اسلامی مالیاتی اداروں سے لیں۔ اسٹیٹ بینک پوری دیانتداری اور ایمانداری کے ساتھ عدالت کے فیصلے کے مطابق مالیاتی اداروں کو اسلامک بینکنگ میں ڈھالنے کیلئے کمربستہ ہے۔اس سلسلے میں مختلف اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ 180میٹنگز ہوچکی ہیں۔اسلامی اسکولز اور مدرسوں کیلئے ضروری ہے کہ مذہبی اسکالرز کوفنانس اور اکنامک کے شعبے کی تعلیم بھی دی جائے۔اس سودی نظام کو دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس میں انصاف کا معیار نہیں ہے۔بیس سال میں لمبا سفر طے کیا ہے لیکن اب اسلامک فنانس کو مزید آگے لے جانا ہوگا۔ امید ہے سیلانی نے جس طرح خدمات کے دیگر میدانوں میں کامیابی حاصل کی ہے اسی طرح سود کے خلاف جنگ میں بھی کامیابی حاصل کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ 75فیصد کسانوں کی بینکنگ سسٹم تک رسائی نہیں ایسا نظام وضع کرنا ہے جس میں ہر ایک کی رسائی ہو۔ پیٹرن ان چیف مفتی منیب الرحمان نے مزید کہا کہ سیاسی قیادت اور ماہرین معاشیات کو چاہیے کہ وہ آئندہ 5سے 20سال تک کیلئے ملکی ترقی کا جامع معاشی منصوبہ بنائیں ورنہ ہم غلام بن جائیں گے۔ پاکستان کی مالی صورتحال یہ ہے کہ سعودی عرب، چین اور متحدہ عرب امارات نے اپنے 6ارب ڈالرنکال لئے توزرمبادلہ کے ذخائر زمین بوس ہوجائیں گے۔ ہمارے بجٹ میں 9ہزار ارب کی آمدن اور 14ہزار ارب کے اخراجات ہیں تو ایسے میں ملک کیسے ترقی کر سکتا ہے۔ گزشتہ حکومت میں شرح سود 13فیصد پر تھا، آج 22فیصد پر ہے مہنگائی کی وجہ سے صنعتکار کہتے ہیں اس شرح پر کاروبار نہیں چل سکتا، جبکہ ملک میں ہاؤسنگ سوسائٹیز کی بھرمار ہے، خدشہ ہے کہ مستقبل میں زراعت کیلئے زمین نہ بچے۔ دنیا میں آبادی عمودی بڑھتی ہے لیکن پاکستان میں زمین کو گھیرا جا رہا ہے، سارا پیسہ زمین میں دفن ہورہا ہے۔ کمپنیاں بند ہورہی ہیں جبکہ داخلی،معاملات ایسے ہیں کہ جامد اثاثے گروی رکھے جارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی اقتصادی ترقی کیلئے بوسیدہ اسلامی سکوک جاری کرنے کا سلسلہ روکا جائے اور اس کے بجائے ایسا نظام بنایا جائے جس میں اقتصادی سرگرمیوں کا فروغ ہو۔اسٹیٹ بینک کو چاہیے فارن ایکسچینج پروڈیوس کرنے والی صنعتوں کو پروموٹ کرے۔ سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ کے بانی و چیئرمین بشیر فاروق کا کہنا تھا کہ ملکی صورت حال بہت بھیانک ہے،آگے چل کرکیا ہوگا،کیونکہ مایوسی کفر ہے اس لئے ہم مایو س نہیں ہوں گے اور سودی نظام کے خلاف جنگی بنیاد پر جدوجہد جاری رکھیں گے۔ گزشتہ حکومت کو کہا تھا کہ ریاست مدینہ اور سود کا نظام ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ خسارے کا بجٹ کب تک چلتا رہے گا اشرافیہ کو اپنے اخراجات کم کرنے ہوں گے، آئی ٹی کے ذریعے پاکستان کو اوپر لانا ہوگا، سیلانی کی کوششوں سے پاکستان فری لائسنگ میں چوتھے نمبر پر آگیا ہے۔سیلانی کا عزم ہے کہ وہ ایک کروڑ نوجوانوں کو آئی ٹی کی تربیت دے کر 100ارب ڈالر آئی ٹی ایکسپورٹ کے ذریعے آمدنی حاصل کرے اور ملک کے قرضے اتارے۔ حکومتوں کو چاہیے کہ وہ مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمان جیسے لوگوں کو ماہر مالیات کے طور پر ساتھ ملا کر کام کریں۔ سیلانی نے 24سال پہلے جو سفر شروع کیا تھا وہ قیامت تک جاری رہے گا، گزشتہ 24سال میں سیلانی نے خدمات کے شعبے میں 60ارب روپے خرچ کئے، جبکہ گزشتہ سال 13ارب روپے کے اخراجات کئے گئے۔ سیلانی کے ذریعے غزہ کے مسلمانوں کی امداد کی جارہی ہے، اور جلد ہی ساڑھے چھ کروڑ روپے کا سامان پاک فضائیہ کے ذریعے غزہ بھیجا جائے گا۔ انہوں نے ملکی صورتحال پرافسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سیاست دان مزے کے دن گزار رہے ہیں، جبکہ ملک میں صدموں کے سوا کچھ نہیں بچا، لیکن ہمیں ہی کچھ کرنا ہوگا۔ سینئر صحافی اور دانشور اوریا مقبول جان نے کہا کہ اکنامک سسٹم تبدیل ہوئے بغیر اسلامک بینکنگ سسٹم رائج نہیں ہوسکتا۔ کمرشل بینکوں کے 4کروڑ سے زائد کھاتے داروں میں سے 3کروڑ سے زائد کھاتے دار تنخواہ دار طبقہ ہے،90فیصد لوگ حلال روزگار کماتے ہیں اور بینکاری نظام سے واسطہ نہیں رکھتے۔ اسلامک بینکنگ کی بنیادی چیز قرض حسنہ ہے۔ اسٹیٹ بینک کا آرٹیکل 42واضح طور پر کہتا ہے کہ بینکوں کی آمدنی انٹرسٹ کے ذریعے ہوگی،جبکہ آئین کا آرٹیکل 22میں اسلامی بینکاری نظام کو وضع کرنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ اسلام میں ٹیکس عائد کرنے کا تصور نہیں ہے، یہ سودی نظام ہمیں دوزخ کی آگ کی طرف لے جا رہاہے۔ سیلانی اسلامک بینکنگ کیلئے جو کام کر رہاہے وہ بنیادی طور پر بینکنگ کو حلال کرنے کا راستہ ہے۔ قبل ازیں کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان اسٹاک ایکسچینج کے منیجنگ ڈائریکٹر و سی ای او فرخ ایچ خان نے کہا کہ اسلامی فنانس کے فروغ میں اس کانفرنس کی بہت اہمیت ہے اور یہاں تمام اسٹیک ہولڈرز کی موجودگی اہم ہے۔ کیپیٹل مارکیٹ میں بھی اسلامی فنانس کی اہمیت ہے، اس پر بہت کام ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی معیشت ایک پہیہ پر چل رہی ہے اور تمام دباؤ بینکنگ شعبے پر ہے، جو تمام ضروریات پوری نہیں کرسکتے۔ کیپیٹل مارکیٹ سے بھی سرمایہ کاری ہوسکتی ہے۔ کیپیٹل مارکیٹ بھی شریعہ کمپلائنٹ ہے اور جبکہ روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ میں 40فیصد کھاتے شریعہ کمپلائنٹ ہیں