
کیا کے الیکٹرک کے سی ای او مونس علوی ’’می ٹو‘‘ کا شکار ہوئے۔۔؟ ………..تحریر :۔۔۔۔عابد حسین۔۔
خواتین کی عزت اور احترام ہمارے دین کی بنیادی تعلیم کا حصہ ہے اسی لیے جب بھی ہمارے معاشرے میں خواتین یا کسی خاتون سے کسی بھی سطح کی زیادتی کی جاتی ہے یا اس کی کوشش ہوتی ہے تو ایسے واقعات خبروں کی زینت بن جاتے ہیں۔ پاکستانی سماج میں سوشل میڈیا کا کردار ابھی ایک ایسے نازک مرحلے سے گزر رہا ہے کہ بسا اوقات اس کے بھیانک نتائج سامنے آجاتے ہیں ، تاہم کبھی کبھی سوشل میڈیا نے وہ کارنامے بھی انجام دیئے کہ جو اگر زبان زد عام و خاص(وائرل)نہ ہوتے تو وہ ظلم کی داستان مظلوموں کے ساتھ ہی دفن ہوجاتی ۔
مہرین عزیز خان بھی ایک ایسا نام ہے جو مسلسل خبروں کی زینت بنا ہوا ہے ۔مہرین عزیز خان کی جانب سے کے الیکٹرک کے سی ای او، مونس علوی کے خلاف ایک درخواست پر صوبائی محتسب کی جانب سے ہونے والے حالیہ فیصلے نے بحث کے نئے دروازے کھول دیے ہیں۔
ماضی میں مہرین عزیز کے ساتھ کام کرنے والے بعض ملازمین کا کہنا ہے کہ اگر اس کیس کو سوشل میڈیا کی توانا ،فوری اور رنگین تھمب نیل کی عینک سے ہٹا کر دیکھا جائے تو پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ ان دونوں افراد (مدعی اور ملزم)میں سے کس کی شخصیت زیادہ قابل بھروسہ ہے۔تاکہ لوگ خود یہ فیصلہ کر سکیں کہ الزامات میں کہاں تک سچائی چھپی ہوئی ہوسکتی ہے۔ مہرین عزیز جن اداروں میں کام کرتی رہی ہیں ،وہاں کے بعض ملازمین کی رائے ہے کہ وہ ایک ’’حاکمانہ ‘‘ذہنیت کی مالک خاتون ہیں ، پڑھی لکھی تو ہیں لیکن آمرانہ ذہنیت ان کی شخصیت میں نمایاں ہے۔وہ چاہتی ہیں کہ ان کے سامنے کوئی بات نہ کرے اور جو وہ کہیں وہ من و عن قبول کر لیا جائے۔ماضی میں ایسے دو سینئرزجو ان کی حاکمانہ سوچ کے ماتحت کام کرتے رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ اگر ان کے کسی افسر نے ان سے سوال کر لیا تو اسے وہ کچھ بھگتنا پڑتا تھا کہ یا تو معاملہ معافی تلافی پر ختم ہوتا تھا یا نوکری ختم ہونے پر۔ ان خاتون کی جانب سے ماضی میں دو نجی اداروں میں بھی اپنے ارد گرد کے لوگوں پر الزامات لگانے کے کیسز سامنے آتے رہے ہیں تاہم بدنامی کے ڈر سےان اداروں نے جواب دینے کے بجائے خاموشی کو بہتر سمجھا لیکن مضبوط اعصاب کے مالک مونس علوی کا معاملہ دیگر سے مختلف اس لیے تھا کہ وہ اپنی بدنامی سے زیادہ اس موقف پر ڈٹے رہے کہ جھوٹے کو اگر گھر تک نہ پہنچایا تو کسی کی عزت محفوظ نہیں رہے گی۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے صوبائی محتسب تک کی سطح پر معاملہ پہنچنے کے باوجود کسی سیٹلمنٹ سے گریز کیا اور اب وہ اپنے کردار اور ساکھ کی بحالی کے لیے سندھ ہائی کورٹ میں کسی دائر کی گئی اپیل کے فیصلے کے منتظر ہیں۔مونس علوی کے ساتھ کام کرنے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ عہدیداروں اور ملازمین کا کہنا ہے کہ مونس علوی سے انہیں کبھی آمرانہ سوچ کا سامنا نہیں رہا،انہیں ہراسانی کے مقدمے میں گھسیٹنا کسی گھٹیا سوچ کا ہی نتیجہ ہوسکتا ہے۔
دیکھا جائے تو صرف یہی خاتون نہیں بلکہ ہمارے معاشرے میں بعض ایسے مرد اور بعض ایسی خواتین موجود ہیں جو ’’می ٹو‘‘کے نظریہ کے مطابق اپنے ساتھ کام کرنے والوں کو صرف دباؤ میں لاکر اپنے کام کروانا چاہتے یا چاہتی ہیں ،ایسی افراد کو جلد یا بدیر اپنے اپنے اداروں سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔ معاشرے کے وہ مرد جو خوامخواہ ’’می ٹو‘‘کا شکار ہوئے ،ان کا کہنا ہے کہ بعض چہرے معصوم ہوتے ہیں لیکن ان کے اندر انتقام کی آگ دفتر کے کسی بھی مرد کی عزت کو خاک میں ملاسکتی ہے۔یہ آگ وہ اپنے ماضی کے کسی بھیانک انجام کی مصنوعی تسکین کے لیے لگاتی ہیں۔بعض مرد اور بعض خواتین میں جب تک مفاہمت کے ساتھ معمولات چل رہے ہوتے ہیں تو ’’می ٹو‘‘کی نوبت نہیں آتی البتہ کسی ایک فریق کی جانب سے دوستی کا توازن خراب ہوتے ہی اسے ’’می ٹو‘‘ کے دلفریب نعرے میں ابھارنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق مہرین عزیز خان نے نومبر 2020 میں صوبائی محتسب (سندھ) کے دفتر میں ایک شکایت درج کرائی، جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ مونس علوی نے انہیں اور ان کی ٹیم کو ہراساں کرنے، ذہنی اذیت دینے، اور کام کے ماحول کو خراب کرنے میں کردار ادا کیاہے۔ شکایت میں دیگر عہدیداروں جن میں کمپنی کے چیف پیپل آفیسر، سیکیورٹی کے سربراہ، اور ایچ آر کمیٹی کے چیئرمین بھی شامل تھے، پر بھی الزامات لگائے گئے، لیکن بعد میں تینوں کوالزامات سے بری کر دیا گیا۔(ایکسپریس ٹریبیون،ڈان)
یہ 31 جولائی 2025 کا دن تھا جب نجی چینلز اور یو ٹیوبرز کی اسکرین سرخ ہونا شروع ہوگئیں کیونکہ اس وقت اسکرین پر صرف یہی خبر چل رہی تھی کہ مونس علوی پر ہراسانی کا الزام ثابت ہوگیا ہے اس لیے انہیں فوراً سی ای او کے عہدے سے ہٹادیا جائے۔جبکہ ان پر 25 لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا گیا۔جرمانے کی عدم ادائیگی پر ان کی جائداد ضبط کرنے، شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک کرنے کی بھی وارننگ شامل تھی۔(تمام اخبارات کی خبر)
اس فیصلے پرمونس علوی نے ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اسے ایک صدمہ دینے والا فیصلہ قرار دیا اوراپنی کردار کشی کی مہم کے خلاف قانونی چارہ جوئی (اپیل) کا عندیہ دیا۔ اگلے ہی روز یعنی یکم اگست 2025 کو سندھ ہائی کورٹ نے اس فیصلے کو معطل کر دیا۔ عدالت نے قرار دیا کہ چونکہ کے الیکٹرک ایک بین الصوبائی ادارہ ہے، لہٰذا مقدمے کی سماعت کے لیے وفاقی آمبڈسپرسن کے پاس پہلے سے ہی قانونی اختیار ہونا چاہیے، نہ کہ پراونشل آمبڈسپرسن کے پاس۔ عدالت نے اس فیصلے کے نفاذ کو روک دیا، اورمونس علوی کو حکم دیا کہ وہ جرمانہ عدالت کے ناظرکے پاس جمع کروائیں، تاوقتیکہ کیس کی شنوائی جاری رہے۔ مزید برآں، عدالت نے مقدمے کے فریقین کو آئندہ سماعت کے لیے نوٹس جاری کر دیے۔ | مہرین عزیز خان کے وکیل نے امبڈسپرسن کے فیصلے کی حمایت کی، انھیں انصاف کا عملی مظہر قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ خواتین کو تحفظ کا پیغام دیتا ہے۔(ڈان)
جبکہ مونس علوی نے اسے غیر منصفانہ فیصلہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ مؤقف حقیقت کے برخلاف ہے، اور وہ قانونی طریقےسے سچائی کو سامنے لا رہے ہیں ۔(جنگ کراچی)
دیکھا جائے تو یہ کیس پاکستان میں ورک پلیس پر خواتین کے حقوق کے تحفظ کے حوالے سے اہم سنگِ میل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ یہ دیکھنا باقی ہے کہ عدالت عالیہ اس کیس کا حتمی فیصلہ کب اور کس حوالے سے صادر کرتی ہے
’’می ٹو‘‘ (یعنی میں بھی )مہم کیا ہے۔۔۔؟
یہ ایک عالمی سوشل مہم ہے جس کا مقصد جنسی ہراسانی، استحصال، اور تشدد کا شکار ہونے والوں کو آواز دینا اور انہیں باہمی حمایت فراہم کرنا ہے۔ یہ تحریک خاص طور پر خواتین کی جانب سے شروع ہوئی، لیکن اس میں مرد اور تیسری جنس کے افراد بھی شامل ہیں۔ یہ مہم 2006 میں امریکی سماجی کارکن ترانا برک نے شروع کی۔ان کا مقصد یہ تھا کہ جنسی استحصال کا شکار افراد، خاص طور پر سیاہ فام خواتین، آپس میں یکجہتی کا اظہار کر سکیں۔
پاکستان میں اس مہم کو شہرت مشہور کیسزعلی ظفر اور میشا شفیع کیس میں ملی ۔میشا شفیع نے گلوکار علی ظفر پر جنسی ہراسانی کا الزام لگایاتھا۔یہ معاملہ عدالت، میڈیا، اور عوامی رائے میں شدت سے زیر بحث رہا۔’’می ٹو‘‘ اب یہ صرف ایک ہیش ٹیگ نہیں، بلکہ یہ ایک تحریک بن چکی ہے۔یہ مہم ہر جنس کے فرد کو یہ سبق دیتی ہے کہ خاموشی ظلم کو طاقت دیتی ہے جیسے علی ظفر اور اب مونس علوی نے ماضی کے دیگر مردوں کی طرح خاموش رہنے کے بجائے عدالت میں جواب دینے کو ترجیح دی ہے تاکہ معاشرے میں ایک نئی مثال قائم کرتے ہوئے ان کی حوصلہ افزائی کر سکیں جو اپنے ساتھ غلط ہونے کے باوجود بھی آج تک خاموش ہیں۔