آخر کار موجودہ حکومت نے 24 اداروں کی نجکاری کی منظوری دے دی۔ یہ فیصلہ اس جرم کا اقرار ہے کہ ہر سیاسی پارٹی اور ہر مارشل لاء ان اداروں کو کامیابی سے نہیں چلاسکا۔میڈیا رپورٹس کے مطابق نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار کی زیر صدارت کابینہ کمیٹی برائے نجکاری کے اجلاس میں 24 اداروں کی نجکاری کی منظوری دیدی گئی‘ اجلاس میں 84 حکومتی ملکیتی اداروں کی کارکردگی کا جائزہ لیا گیا جبکہ 40 حکومتی ملکیتی اداروں کو درجہ بندی کے تحت چلانے کا فیصلہ کیا گیا۔نجکاری کیلئے سفارش کیے گئے اداروں کی فہرست میں پی آئی اے ، فرسٹ ویمن بینک لمیٹڈ، ایچ بی ایف سی ، زرعی ترقیاتی بینک‘یوٹیلیٹی اسٹورزکارپوریشن، پیکو، جنکوون‘ٹو،تھری،فور کے علاوہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں لیسکو ، پیسکو ، آئیسکو ، میپکو ، جیپکو ، حیسکو ،پیسکو،سیپکو اور دیگر ادارے شامل ہیں۔اسٹیٹ لائف انشورنس، سندھ انجینئرنگ لمیٹڈ،پاکستان ری انشورنس کارپوریشن بھی نجکاری کی فہرست میں شامل ہیں۔ ملک کی دو بڑی سیاسی پارٹیوں نون لیگ اور پیپلز پارٹی نے تین تین بار بلا شرکت غیرے حکومت کی۔ اس کے علاوہ ملک میں تین طویل ترین مارشل لاء بھی لگے لیکن یہ بڑی پارٹیاں اور طویل مارشل لاء والے بھی اپنے اپنے دور حکومت میں ان میں سے بیشتر اداروں کو سنبھالنے میں بری طرح ناکام رہے۔سیاسی حکومتوں نے اپنے اپنے دور میں پی آئی اے اور پاکستان اسٹیل سمیت بعض دیگر اداروں کی نجکاری کی مخالفت یا نجکاری کے عمل میں تاخٰیری حربوں کا عمل جاری رکھا کیونکہ معاملہ ووٹ بینک کا تھا۔ سیاسی بھرتیاں ہوتی رہیں ،ریٹائرڈ یا حاضر سروس فوجی افسران تعینات ہوتے رہے، نجکاری سے متعلق ہر حکومت نے وزارتوں کے مکمل مزے بھی لیے۔اس دوران زر تلافی دے دے کر قومی خزانہ نا صرف خالی کیا گیا بلکہ ملک کو دیلوالیہ ہونے کے قریب پہنچا دیا گیا۔ اب آئی ایم ایف کی شدید دباؤ میں ایک بار پھر ان اداروں کو ناکام اور خسارے والے ادارے قرار دے کر قومی خزانے سے جان چھڑانے کی بات کی جارہی ہے۔ لیکن ان حکم رانوں سے کوئی یہ پوچھے کہ ان تھوک کے بھاؤ اداروں کی ناکامی کا زمہ دار جو جو بھی رہا ہے اس سے بھی کوئی باز پرس ہوگی یا نہیں۔ اعلیٰ مراعات یافتہ طبقہ ، وفاقی سیکریٹریز، وزیر ، مشیر، ریٹائرڈ جنرلز سمیت ہر زمہ دار سے پوچھا جائے کہ ان کے دور میں ادارے کیوں کامیاب نہیں ہوسکے۔ اگر ان زمہ داروں کے پاس مناسب جواز ہوں تو انہیں معاف کردیا جائے اور وہ جسے ذمہ دار قرار دیں اسے انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے کیونکہ عوام نے غربت کی بہت سزا بھگت لی۔ حقائق تو یہ بتاتے ہیں کہ ملک میں ہر وہ ادارہ ترقی کررہا ہے جو اسٹیلشمنٹ ،وفاقی بیوروکریسی یا سیاسی دباؤ سے پاک ہے اور ان کے ملازمین کو مرتے دم تک یا ریٹائر ہونے تک ملازمت کا تحفظ حاصل نہیں ہے البتہ ان اداروں میں اچھی کارکردگی پر ترقی اور خراب کارکردگی پر برطرفی کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ جیسے تمام موبائل کمپنیاں کامیاب ہوگئیں لیکن پی ٹی سی ایل ناکام ہے ۔ بڑے نجی ٹی وی چینل کامیاب ہیں لیکن پی ٹی وی ناکام ہے ۔ ایف ایم ریڈیو کامیاب ہے لیکن ریڈیو پاکستان کے ملازمین پریشان ہیں۔ پاکستان پوسٹ آفس ناکام ہے لیکن ٹی سی ایس سمیت ہر کوریئر کمپنی کامیاب ہے۔ پاکستان ریلوے خسارے میں ہے لیکن نجی ٹرانسپورٹ سروس ڈائیو،، فیصل موور، وڑائچ کوچ، اسکائی ویز کامیاب ہیں۔پاکستان ریلوے کی فریٹ سروس کے مقابلے میں نجی گڈز ٹرانسپورٹ سروس کامیاب ہے۔ پی آئی اے کا برا حال ہے لیکن بیشتر نجی ایئر لائنز منافع میں ہیں۔ جب ان سب اداروں کو چلانے والے عام پاکستانی اتنے با صلاحیت ہیں تو وفاقی اور صوبائی بیورو کریسی کے نظام کی تجدید ضروری ہے۔ یہ کیا جاسکتا ہے کہ سی ایس ایس کے ذریعے آنے والے افسران کو پہلے چھ ماہ نجی کامیاب اداروں میں انٹرن شپ کرائی جائے، سرکاری مستقل ملازمت کو کارکردگی سے مشروط کیا جائے ۔ناکام اداروں میں سیاسی دباؤ اور سیاسی بھرتیوں کے زمہ داروں کا تعین کرکے ان پارٹیوں سے پی آئی اے اور پاکستان اسٹیل کا خسارہ پورا کرایا جائے۔