اسلام آباد۔19اپریل (اے پی پی):پاکستان کے ادبی منظر نامے پر سماجی کارکن و شاعرہ عابدہ اقبال آزاد نے گہرے نقوش چھوڑے ہیں جن کو اس دنیا سے گزرے 12 برس بیت چکے ہیں تاہم آج بھی پاکستان کے ادبی منظرنامے میں اپنی استعاراتی موجودگی کی وجہ سے سر بلند ہیں، وہ 20 اپریل 2012 کو دار فانی سے کوچ کر گئی تھیں۔
ان کی ادبی خدمات عصر حاضر کے ابھرتے ہوئے مصنفین کے لیے رہنمائی و ترغیب کا باعث ہیں، ان کی شاعری اور کہانیاں آج بھی قارئین کے لیے ترو تازہ ہیں۔ عابدہ اقبال آزاد کے مشہور ادب پاروں میں 1971 کی پاک بھارت جنگ اور اس وقت کے مشرقی پاکستان میں سیاسی بغاوت کے تناظر میں لکھی گئی تصانیف “ڈیٹ لائن ڈھاکہ” اور “آگ کا دریا ہے اور ڈوب کر جانا ہے ” شامل ہیں۔انہوں نے ادبی شخصیت ہونے کے ساتھ ساتھ ایک کالم نگار کی حیثیت سے بھی معاشرے میں ٹھوس کردار ادا کیا۔عابدہ اقبال نے اپنی شاعری اور نثر کو سماجی ناانصافیوں سے لے کر سیاسی بدعنوانی تک ملک کو درپیش اہم مسائل پر روشنی ڈالنے کے لئے پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کیا، ان کی تحریریں معاشرےمیں تبدیلی کا موجب تھیں۔
انہوں نے اپنے صحافتی کیریئر کا آغاز بہت کم عمری میں ایک فیچر رپورٹر کے طور پر کیا تھا اور اپنے پہلے نام عابدہ یاسمین ربانی کے ساتھ بنگلہ دیش آبزرور اور بنگلہ دیش ٹائمز میں خدمات انجام دیں۔ ایم بی بی ایس کرنے کے بعد انہوں نے شادی کر لی اور کراچی منتقل ہو گئیں۔ عابدہ اقبال آزاد جنہیں ایک سرگرم شاعرہ کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے، اپنی متاثر کن تحریروں کے ذریعے اپنے خیالات اور جذبات کا بھرپور اظہار کرتی نظر آتی ہیں۔
انہوں نے سماجی اور سیاسی مسائل کو اپنی ادبی و صحافتی کاوشوں کا موضوع بنانے کے ساتھ ساتھ انسانی اور خواتین کے حقوق کے لئے سماجی اور سیاسی کارکن کے طور پر بھرپور کردار ادا کیا۔عابدہ اقبال آخری دم تک کالم نگار کی حیثیت سے مختلف خبر رساں اداروں سے وابستہ رہیں۔ ان کی تخلیقات میں سعادت حسین منٹو، خلیل جبران اور رابندر ناتھ ٹیگور کی تخلیقات کا اردو ترجمہ بھی شامل ہے۔
مرحومہ کئی غیر منافع بخش تنظیموں (این جی اوز)سے وابستہ تھیں۔ عابدہ اقبال آرٹس کونسل آف پاکستان (اے سی پی) کی تاحیات رکن بھی تھیں۔عابدہ اقبال آزاد کی برسی کے موقع پر جامعہ کراچی کے شعبہ اردو کی چیئرپرسن اور جامعہ کراچی کے اردو تحقیقی جریدے کی مدیر پروفیسر ڈاکٹر عظمیٰ فرمان فاروقی نے کہا کہ عابدہ اقبال آزاد کی برسی کے موقع پر آئیے ایک لمحے کے طور پر ان کی شاعرہ کی حیثیت سے ان کی قابلیت اور ملک کی تاریخ اور سیاست کے بارے میں ان کی تفہیم کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں جیسا کہ ان کی تحریروں سے ظاہر ہوتا ہے۔
عظمیٰ فرمان فاروقی نے انہیں فیمنزم کی پرجوش حامی کے طور پر یاد کیا جو بامعنی طریقوں سے معاشرے میں اپنا حصہ ڈالتی ہیں اور کہا کہ یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ انہیں ہر سال ان کے دیرپا اثرات اور ان کی خدمات کی یاد دہانی کے طور پر اعزاز سے نوازا جاتا ہے۔