کراچی(پ ر) پاکستان میں ڈیجیٹل میڈیا پلیٹفارمز کے ذریعے سماجی تبدیلی کے لئے ملک بھر میں سول سوسائٹی تنظیموں (سی ایس اوز) کو وسیع پیمانے پر تربیت کی ضرورت ہے۔ درپیش چیلنجز کا سامنا کرنے کے لئے سول سوسائٹی کو اپنے سوشل میڈیا کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔
سماجی تنظیموں نے سوشوسول میٹ اپ میں صنفی بنیاد پر حساس اور مستند مواد کو ڈیجیٹل میڈیا پلیٹفارمز پر پھیلانے کا مطالبہ کیا ہے۔
گلوبل نیبر ہوڈ فار میڈیا انوویشن (جی این ایم آئی) کی جانب سے امریکی محکمہ خارجہ کے تعاون سے منعقد ہونے والی اس تقریب میں سول سوسائٹی اور ڈیجیٹل میڈیا انفلوئنسرز سے تعلق رکھنے والی نمایاں شخصیات نے پاکستان میں ڈیجیٹل میڈیا کی بڑھتی ہوئی اہمیت اور اس کی سماجی و شہری تبدیلی کے ممکنہ امکانات کا جائزہ لیا۔
سینئر براڈکاسٹ جرنلسٹ اور جی این ایم آئی کی صدر ناجیہ اشعر نے مقامی سوشل میڈیا انفلوئنسرز کو بامعنی کانٹینٹ بنانے اور مثبت سماجی بیانیے کو فروغ دینے کے لئے حال ہی میں منعقدہ انفلوئنس اپ پروگرام کی کامیابی پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے جدید میڈیا کے طریقوں کے ذریعے صحافت برائے امن، ماحولیاتی صحافت اور صنفی طور پر حساس رپورٹنگ کو فروغ دینے کے لئے جی این ایم آئی کی کاوشوں کا تذکرہ کیا ۔
شرکاء کی جانب سے ڈیجیٹل میڈیا کے حوالے سے آرأ پیش کی گئیں۔ ممبر سندھ ہیومن رائٹس کمیشن ذوالفقار شاہ نے کہا کہ سوشل میڈیا نے پاکستان کے طاقتور حلقوں کو چیلنج کیا ہے اور ہمارے سماج میں اہم حیثیت حاصل کر چکا ہے۔ انہوں نے روایتی سول سوسائٹی اور ڈیجیٹل میڈیا کے درمیان فرق کو ختم کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔
انڈویجوئل لینڈ سے تعلق رکھنے والے مشہود علی نے ڈیجیٹل میڈیا کو ایک کثیر الجہتی پلیٹ فارم کے طور پر بیان کیا جس کی بساط سوشل میڈیا سے کہیں آگے ہے ، انہوں نے کانٹینٹ اور پلیٹ فارم الگورتھم کی پیچیدگیوں کو بھی اجاگر کیا ۔ انہوں نے کانٹینٹ کو سمجھنے کی حکمت عملی کی ضرورت پر زور دیا۔
کونسل فار پارٹیسیپیٹری ڈیولپمنٹ (سی پی ڈی) سے تعلق رکھنے والی یسرا الیاس نے متنوع آوازوں کو مضبوط کرنے اور سماجی نقطہ نظر کو فروغ دینے میں ڈیجیٹل میڈیا کے کردار پر آگاہی دی ۔ کلیکٹو پاکستان سے تعلق رکھنے والے سمیر علی خان نے ڈیجیٹل میڈیا کے منظر نامے میں درپیش چیلنجز اور اس کی پیچیدگیوں کا حل تلاش کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔
ڈیجیٹل میڈیا اور سول سوسائٹی کے درمیان تعاون کے مسئلے پر بات کرتے ہوئے عورت فاؤنڈیشن کی منیزہ خان نے سول سوسائیٹی کو اپنی سوشل میڈیا رسائی بڑھانے اور پسماندہ طبقات کے ساتھ منسلک ہونے کی ضرورت کو اجاگر کیا۔
انہوں نے ڈیجیٹل میڈیا اداروں اور انفلوئینسرز پر زور دیا کہ وہ ایسا کانٹینٹ پھیلانے سے گریز کریں جو صنفی تعصب کو بڑھاوا دے بلکہ وہ کمزور گروہوں کے انسانی حقوق کو فروغ دیتے رہیں۔
سینیئر براڈکاسٹ جرنلسٹ سید مسعود رضا نے سماجی تبدیلی لانے کے لیے پیغام رسانی کے طریقوں کو مزید پرکشش بنانے کے لئے ایسی حکمت عملی اپنانے کا مشورہ دیا جس میں تنازعات، جذبات اور گلیمر شامل ہوں۔ انہوں نے سول سوسائیٹی کے لئے اخلاقی رپورٹنگ اور کانٹینٹ کریئٹ کرنے کی تربیت کی اہمیت کو واضح کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ صداقت ساکھ کو بڑھاتی ہے جس سے شراکت داری ہوتی ہے اور انفلوئینسرز کی آمدنی میں اضافہ ہوتا ہے۔
تار میڈیا کے سفیان خان نے سماجی مسائل کو مؤثر طریقے سے فروغ دینے کے لئے ٹرینڈز کو فالو کرنے اور پرکشش کانٹینٹ تیار کرنے کا مشورہ دیا۔ دی انوائرمنٹل سے تعلق رکھنے والے احمد شبر نے کہا کہ سوشل تھیمز کو وائرل کرتے ہوئے انفلوئینسرز اپنے پلیٹفارمز سے بھی کافی کام کرسکتے ہیں ۔
سوشوسول میٹ اپ کا اختتام سول سوسائٹی اور ڈیجیٹل میڈیا انفلوئنسرز کے درمیان وسیع تر تعاون قائم کرنے کے عزم کے ساتھ ہوا تاکہ پاکستان میں مثبت سماجی تبدیلی لانے کے لئے ڈیجیٹل میڈیا کی طاقت سے فائدہ اٹھایا جاسکے۔