کراچی(پاک نیوز کورٹ رپورٹ) مشرق وسطی کے ایک ممتاز سرمایہ کار نے سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی ہے جو بظاہر سرمایہ کاروں کے کنسورشیم کی طرف سے ایک پاکستانی کاروباری شخصیت کیخلاف دھوکہ دہی اور دیگر منسلک سنگین الزامات پر مبنی ہے۔ تاہم اس کیس میں پاکستان کے بنکنگ سسٹم پر بھی بظاہر سوالات اٹھائے گئے ہیں کہ کیسے بغیر پیشگی اجازت کے اور اسٹیٹ بنک کے قوانین کی مکمل پاسداری نا کرتے ہوئے قریبا 10 ارب کی خطیر رقم ایک نجی بنک اکاؤنٹ میں جا پہنچی، اور یہ کہ اس بظاہر بدنیتی پر مبنی عمل سے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو نقصان پہنچایا گیا۔
تفصیلات کے مطابق وائٹ کرسٹل نامی ایک بین الاقوامی کمپنی نے اپنے دعویٰ میں پاکستان میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان، دبئی اسلامک بینک، حبیب بینک و میزان بینک کے ساتھ ڈایئوو گروپ کے مالک شہر یار چشتی، سنر جیکو پی کے لمیٹڈ، بسینٹکو لمیٹڈ اور دیگر کو فریق بنایا ہے۔ وائٹ کرسٹل لمیٹڈ کی جانب سے شان عباس عشرے اس کیس کے مدعی ہیں۔ اس مالی بدعنوانی کی ابتداء بظاہر حبیب بینک سے اس وقت شروع ہوتی ہے جب موجودہ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب اس بنک کے بطور سی ای او سربراہ تھے۔
درخواست گزار کے مطابق شہریار چشتی نامی ایک پاکستانی بزنس میں نے سی پی ایل سیل پروسیڈ کی 10 ارب روپے سے زائد رقم ایک غیر ملکی بینک کی پاکستان میں موجود شاخ میں ایک ذاتی اکاؤنٹ میں منتقل کروائی اور اپنی پوزیشن کا غلط استعمال کرتے ہوئے اپنے ذاتی مفاد کو ترجیح دی۔ اس سرمایہ کار نے دیگر شیئر ہولڈرز کو مکمل اندھیرے میں رکھا گیا اس لیے عدالت اس کیس کا فوری نوٹس لیتے ہوئے شہریار چشتی سے رقم واپس وصول کرائے۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق سندھ ہائی کورٹ نے اس مقدمے سے منسلک فریقین کو نوٹسز ارسال کرتے ہوئے درخواست سماعت کیلئے مقرر کر دی ہے۔ دوسری جانب شہر یار چشتی نے ایک نجی ٹی وی کے حوالے سے سوال پر موقف اختیار کیا ہے کہ یہ ایک “پے چیدہ” ٹرانزیکشن ہے۔
پٹیشن کے مطابق وائٹ کرسٹل، کیمن آئی لینڈ میں انفراسٹرکچر گروتھ کیپیٹل فنڈ (آئی جی سی ایف) میں اب تک 10 ملین ڈالرز کی سرمایہ کاری کر چکی ہے۔ اس طرح یہ دونوں کمپنیز پارٹنرز ہیں۔ 2021 میں جب آئی جی سی ایف نے ایک ارب 17 کروڑ 26 لاکھ 69 ہزار 2 سو 98 شئیرز سنرجیکو سے سنٹکو کو تقریباً ساڑھے دس ارب روپے میں منتقل کرنے کی اجازت دی تو یہ خطیر رقم حبیب بینک لمیٹڈ کے اکاؤنٹ ہولڈر سنرجیکو مو انکارپوریٹڈ (سی ایم آئی) کے نام پر منتقل کردی گئی یہ کمپنی بھی آئی سی جی ایف کی ملکیت میں ہے۔ اس پورے عمل کو غیر قانونی اس لیے کہا گیا کیونکہ یہ پیسہ آئی جی سی ایف کے سرمایہ کاروں کا تھا نہ کہ سینرجیکو یا اس کے شئیر ہولڈرز کا۔ حیرت انگیز طور پر عظمیٰ عباسی جو عامر عباسی کی اہلیہ بھی ہیں، کسی بھی طرح سے آئی جی سی ایف سے منسلک نہیں تھیں لیکن بینک میں CMI سنرجیکو مو انکارپوریٹڈ میں دستخط کنندگان میں بھی شامل تھیں۔ یہ پیسہ 2021 سے 2023 تک حبیب بینک میں رہا لیکن پھر 10 ارب روپے سنرجیکو مو انکارپوریٹڈ کے کہنے پر آئی جی سی ایف کے کنٹرول سے باہر کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو پاکستان لمیٹڈ (DWPL) کے میزان بینک لمیٹڈ کے اکاؤنٹ میں اپریل 2023 کو ٹرانسفر کر دیے گئے۔پھر یہ دس ارب روپے DWPL کے دبئی اسلامک بینک میں ٹرانسفر کردیے گئے۔ مدعی کے مطابق یہ 10 ارب روپے ایک ایسے شخص کے دستخط سے ادھر سے ادھر ہو رہے تھے جس کا آئی جی سی ایف سے کوئی پروفیشنل تعلق نہیں تھا۔ CMI سنرجیکو کو انکارپوریٹڈ کسی بھی طرح سے سنرجیکو پی کے لمیٹڈ کےدائرہ اختیار میں نہیں جبکہ CMI عامر عباسی کنٹرول کر رہے تھے۔ اس سے وائٹ کرسٹل لمیٹڈ سمیت آئی جی سی ایف کے سرمایہ کاروں کو نقصان پہنچایاگیا۔ مدعی کے مطابق اس سارے عمل میں شہریار ارشد چشتی بظاہر سب سے بڑا فائدہ اٹھا رہے تھے۔ مدعی نے سوال اٹھایا ہے کہ آخر یہ پیسہ DWPL کے اکاؤنٹ میں سرمایہ کاروں کے علم لائے بغیر ٹرانسفر ہی کیوں ہوا؟ شہریار دسمبر 2022 میں آئی جی سی ایف کے ڈائریکٹر کے طور پر سامنے آئے اور پھر CPL کے مزید شئیرز بغیر کسی قیمت کے عامر عباسی کو دے دیے گئے۔ درخواست گزار کے مطابق ایک شیئر کی قیمت 3.37 تھی اس طرح خطیر رقم کے شیئرز بغیر کسی قیمت کے عامر عباسی کو سونپ دیے گئے۔ آئی جی سی ایف سے جاری کردہ جنرل پارٹنرز رپورٹ بھی گمراہ کن بنائی گئی۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اپریل 2023 سے CPL سیل پروسیڈ پوری طرح سے آئی جی سی ایف کے کنٹرول میں ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ پیسہ DWPL کے دبئی اسلامک بینک میں ٹرانسفر ہوچکا تھا۔ رقم کی منتقلی کے مرکزی کردار شہریار چشتی نے لمیٹڈ پارٹنرز کو تسلی دی کی پیسہ پوری طری آئی جی سی ایف کے کنٹرول میں ہی ہے جبکہ سارا پیسہ شہریار چشتی کے ذاتی اکاؤنٹ میں موجود تھا۔ وائٹ کرسٹل لمیٹڈ WCL نے سی ای او، دبئی اسلامک بینک سے بھی رقم کی منتقلی پر وضاحت طلب کی ہے۔ مدعی کے مطابق وہ ایک بیرونی سرمایہ کار ہے، اس لیے عدالت اس کیس کا فوری نوٹس لے اور شہریار چشتی سے رقم نجی اکاؤنٹ کے بجائے کنسورشیم کے اصل اکاؤنٹ میں واپس کرائے۔ سندھ ہائی کورٹ نے اس اہم معاملہ کو سماعت کیلئے مقرر کر کے ملوث فریقین کو معاملے کی وضاحت کیلئے نوٹسز جاری کر دیئے ہیں۔